مکہ مکرمہ
کرۂ ارض کے جس چپے کواﷲ رب العزت نے اپنے ‘حرم’ (گھر) کے لیے منتخب کیا ہوا ہے جس کا ذکر قرآن پاک اور دوسری الہامی کتابوں میں آیا ہوا اور جہاں کائنات کے سب معززانسان ہادی برحق سید نا محمد ﷺ کی ولادت باسعادت ہوئی ہو۔اس مقام کی برکتوں کا احاطہ نہ تو کوئی انسان آج تک کر سکا ہے اور نہ قیامت تک کر سکے گا۔
مکہ معظمہ جس کو قرآن پاک میں بکۃ المبارکۃ کہا گیا ہے، غیر آباد اور غیرمعروف سیاہی مائل پہاڑی پر مشمتل ایک ایسی زمین تھی جہاں پانی وغیرہ کا نا م تک نہ تھا۔ حد نظر تک سنگلا خ پہاڑ اور پتھر یلی چٹانیں تھیں۔ وسیع وعریضرقبہ صحرائی اور ریگستانی تھا مگر یہ میرے رب کی نظر کرم تھی کہ اس نے زندگی سے محروم اس خطہ کو اپنے ”حرم‘‘ کے لیے منتخب کر کے اس طرح عزت بخشی کہ یہ شہرام القریٰ (تمام بستیوں کی ماں) بن گا۔ یہاں پہنچ کر آج بھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ ارض پاک ایک شفیق ماں کی طرح ہاتھ پھیلاےبھٹکے ہوئے انسان کو پنی آغوش رحمت میں سمیٹنے کے لیے بیتاب ہے۔ یہاں ہر لمحہ امن ہے ، سکون ہے اور قرب الہی کا احساس ہے۔
اس کو مکہ معظمہ کہیں یا بکتہ المبارکۃ اُم القریٰ کے نام سے یاد کریں یا بلد الامین (امن کا شہر) یہ سب میرے رب کے اسی پسندیدہ شہر کے متبرک نام ہیں جہاں لاکھوں انسان ہر دم اس طرح کھینچے چلے آتے ہیں جیسے شمع کے گرد پروانے۔
مسجد الحرام
مسجدالحرام پوری کائنات کی عظیم ترین عبادت گاہ ہے جہاں ایک صلوٰۃ قائم کرنے کا ثواب ایک لاکھ صلوٰۃ کے برابر ہے۔ مکہ معظمہ کی اسی مسجد کے وسط میں کعبۃ اﷲ قائم ہے جو قیامت تک کے مسلمانوں کا قبلہ ہے۔ یہ دنیا کی ایک اسی منفرد مسجد ہے جہاں فرزندان توحید کا جذبہ ایمان سے عروج پر ہوتا ہے۔ اس مسجد میں کیونکہ کعبۃ اﷲ ہے۔اس لیے یہاں پر صلوٰۃ کی صفیں دائرے کی صورت میں بنائی جاتی ہیں جو کیف و سرور کا عجب منظر پیش کرتی ہے۔دنیا کی صرف تین مساجد ایسی ہیں جس کیلیے اﷲ او اس کے رسول ﷺ کا اشاد ہے کہ یہاں صلوٰۃ کی ادائیگی کے لیے سفر کر کے آو۔ان تین مساجد میں پہلا نمبر اسی مقدس مسجد ، مسجد الحرام کا ہےجبکہ بیت المقدس میں واقع قبلہ اول مسجد اقصی ٰ اور مدینہ منورہ کی مسجد ، مسجد نبویﷺ کا نمبر بالترتیب دوسرا اور تیسرا ہے۔ اسی مسجد کے صحن میں کعبتہ اﷲ ہے جہاں فرزندان توحید طواف کرتے ہیں اور اسی مسجد میں صفا اور مروہ کی پہاڑیاں بھی واقع ہیں جن کے درمیان عشق کے متوالے بی بی ہاجرہ کی سنت کی پیروی کرتے ہوئے سعی کے عمل میں مصروف رہتے ہیں۔ آج کی مسجد الحرام تعمیرات کی دنیا کا عظیم شہکار ہے۔ اسکی وسعت اس وقدر زیادہ ہے کہ اسلام کے لاکھوں پروانے بیک وقت صلوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ساؤنڈ سسٹم دنیا کے جدید ترین نظام سے آراستہ ہے۔ کیا مجال کے صلوٰۃ کے دوران مسجد کے کسی کونے اور مسجد کے باہر دور دور تک کتبیرات اور قرآت کی آواز نہ پہنچے ۔صلوٰۃ ادا کرنے والا مقتدی امام سے خواہ کتنا ہی دور کیوں نہ ہو اس کو ایسا محسوس ہوتا ہے امام صاحب کے پیچھے کھڑا ہے۔روشنی کا اس قدر بھر پور انتظام کہ سورج کب غروب ہو اور کب مصنوعی روشنی مسجد کے طول وعرض میں پھیل گئی احساس تک نہیں ہوتا اور نہ طلوع آفتاب کا پتہ چلتا ہے اور کب قدرتی روشنی نے مصنوعی پر غلبہ پالیا ۔ مسجد الحرام کے کل ۹۵دروازے ہیں جن میں مرکزی دروازہ ” باب عبدالعزیز‘‘ کہلاتا ہے
کعبۃ اﷲ
مسجد الحرام کے دائرہ نما صحن کے عین وسط میں کھڑکی چار کونوں والی یہ متبرک اور پر شکوہ عمارت کعبۃاﷲ ہے جو دنیا ئے اسلام کا قلب بھی ہے۔قبلہ بھی جس کی سمت دنیا کے تمام مسلمان رخ کر کے نماز ادا کرتے ہیں۔کعبۃ اﷲ کا طواف ، اﷲ تعالیٰ کا ایک ایسا انعام ہے جس پر مسلمان فخر کرتے ہیں اور غیر مسلموں کے لیے اس کا تواتر کے ساتھ ہونے والا طواف ، اﷲ تعالیٰ کا ایک حیران کن امر ہے ۔جب سے یہ گھر تعمیر ہوا ہے ، دنیا کے لوگ مسلسل اس کا طواف کر رہے ہیں سوائے پانچ اوقات صلوٰۃ فرض کے گرمی ، سردی، برسات ، طوفان غرضیکہ ہر موسم میں طواف جاری رہتا ہے۔لوگ بدلتے رہتے ہیں لیکن طواف کی رونق ہزاروں سال سے جوں کی توں برقرار ہے۔جو لوگ حج وعمرہ کرنے جاتے ہیں ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ طواف کریں کیونکہ یہ واحد عبادت ہے جس طرف کعبۃ اﷲ میں ہی ممکن ہے جس کا ان کو زندگی میں کبھی کھبی موقع ملتا ہے۔
جب حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسمعیل ؑ نے کعبۃ اﷲ کی تعمیر مکمل کی تو اﷲ ذولجلال سے دعا کی ” اے رب العزت اب تو اپنے بندوں کو اپنے اس متبرک گھر کی زیا رت اور طواف کے لیے بھیج ‘‘ اس دعا کے بارے میں ایک روایت یہ ہے کہ اس دعا کو اﷲ تعالیٰ نے قیامت تک آنے والی تمام ارواح تک پہنچایا او جن روحوں نے اس پر اپنے باپوں کی پشت سے آمین کہا، اﷲ تعالیٰ نے ارواح کو یہ انعام دیا کہ وہ اپنی زندگیوں میں حضرت اسماعیل کے بنائے ہوئے کعبۃ اﷲ کا ضرور دیدار کریں۔
حطیم
کعبۃ اﷲ کی چکور عمارت کی ایک دیوا رکے ساتھ نصف دائرہ کی صورت میں احاطہ نما ایک چھوٹی سی دیوار کھینچی ہوئی ہے۔ اس دیوار اور کعبۃ اﷲ کی دیوار کے درمیان جو مختصر سی جگہ ہے اسے ”حطیم‘‘ کہتے ہیں۔حطیم ایک بے حد مقدس جگہ ہے اور اس مقام پر ٖفضل صلوٰۃ ادا کرنا انتہائی اجروثواب کا باعث ہے۔یہ جگہ دراصل خانہ کعبہ کا اندرونی حصہ ہے۔ رسول ﷺ کے زمانے میں جب کعبۃ اﷲ کی دیوار یں اونچی کی جانے لگیں تو وسائل کی کمیابی کی وجہ سے اس حصہ کی دیوار اونچی نہ ہو سکی اور رسولﷺ کے حکم پر اس حصہ کو یونہی چھوڑ دیا گیا ۔علماء کا خیال ہے کہ یہ اﷲ رب العزت کی مصلحت تھی کہ کعبۃ اﷲ کا یہ حصہ کھلا رہے تاکہ عام آدمی اس جگہ صلوٰۃ ادا کرکے وہی اجروثواب حاصل کر سکے جو کعبۃ اﷲ کے اندر صلوٰۃ ادا کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔
دار ارقم
دارارقم رسول ﷺ کے ایک صحابی سیدنا ارقمؓ کا مکا ن تھا۔ رسول ﷺ نبوت کے انتہائی ابتدائی دور یہ مکان اسلام کی تبلیغ اور دین کی ترویح کے لیے استعمال کیا کرتے تھے ابھی مسلمان اس قدر طاقتور نہیں ہوئے تھے کہ وہ کھلم کھلا اسلام کی تبلیغ کرتے یہ کعبۃ اﷲ شریف میں جا کر اﷲ واحد کی عبادت کرتے ۔ لیکن یہ دار ارقم ہی تھا جہاں سے اسلام کی سر بلندی کا سورج بلند ہوا اور اسی حقیقت کے باعث اس مقام کو تایخ اسلام میں ایک خاص مرتبہ اور فضیلت حاصل ہے ۔ نبی کریم ﷺ کی ابتدائی دعوت پر ۳۹افراد دائرہ اسلام میں داخل ہوئے ۔ دار ارقم وہ تاریخی مقام ہے جہاں عمر بن خطابؓ نے رسول اﷲ ﷺ کے ہاتھوں پر بیعت کی اور حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔
پہلے پہل دارارقم مسجد الحرام کے باہر جبل صفا کی جانب تھالیکن مسجد الحرام کی توسیع تعمیر کے بعد یہ مسجد شریف کی حدود میں آگیا ہے۔ زائرین سعی کے دوران کوہ صفا سے مروہ کی جانب نکلنے والی چوتھے دروازے پر ”باب ارقم‘‘ لکھا ہے۔ یہی وہ تاریخی مقام ہے جہاں کبھی سیدنا ارقمؓ کا مکان اور جہاں سیدنا عمرؓ نے اسلام قبول کیا تھا۔
زائرین دوران سعی سات مرتبہ اس مقام کے قریب سے گذرتے ہیں چند لمحات یہاں رک کر اس مقام کی ضرور زیارت کر نی چاہیے کیونکہ یہ کرۂ ارض کا وہ مقدس مقام ہے جہاں سے دین اسلام کی شاندار ابتدا ہوئی ۔ بڑی فضیلت کا مقام ہے۔ اﷲ رب العزت سب کو اس مقام پاک کی زیارت کا موقع عطا فرمائے۔
مولد نبی صلی اﷲ علیہ وسلم
مسجد الحرام سے چند قدموں کے فاصلے پر وہ مکان مبارک موجود ہے جہاں کائنات کی سب سے معزز ہستی سرکار دوعالم سیدنا محمد ﷺ کی ولادت باسعادت ہوئی۔ حج یا عمرے کی فرضیت ادا کرنے کے بعد اہل ایمان کے دل میں یہی خواہش پیدا ہوتی ہے کہ وہ سب سے پہلے اس بابرکت مکان کی زیارت کر کے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کریں جہاں ہادی برحق کی مبارک پیدائش ہوئی۔ رسول اﷲ ﷺ کی ولادت مکہ کے محلے شیعب عامر میں ہوئی جو سوق اللیل (یعنی رات کا بازار) سے متصل ہے۔ اگر زائرین باب العمرہ سے باہر نکلیں ( باب العمرو مسجد الحرام کا وہ خارجی دروازہ ہے جو جبل مروا جہاں سعی کا ساتواں چکر ختم ہوتا ہے موجود ہے) اور اس دروازے کو اپنی پشت پر رکھتے ہوئے سفید ٹائلوں سے مزین ہے خوبصورت فرش پر آگے کی جانب بڑھیں انہیں بائیں ہاتھ پر ایک بازار ملے گا جسے ” سوق اللیل‘‘ کہتے ہیں۔ اس بازار میں دیگر دوکانوں کےساتھ جابجا حجام کی دوکانیں موجود ہیں جہاں زائرین سعی کی تکمیل کے بعد سر کے بال منڈواتے نظر آتے ہیں۔ عربی میں سوق با زار کو اور لیل رات کو کہتے ہیں۔گو کہ آج کا مکہ مکرمہ تو پوری رات جاگتا ہے اور حرم پاک کے چاروں طرف واقع محلوں میں موجود بازار چوبیس گھنٹے کھلے رہتے ہیں تا ہم رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں شعیب عامر سے متصل بازار رات میں لگتا تھا ۔ لہٰذا اس کا نام سوق اللیل پڑ گیا اور آج تک اسے اسی نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔باب العمروہ سے باہر نکل کر زائرین باب العمروہ کو اپنی پشت پر رکھتے ہوئے سفید ٹائلوں سے مزین فرش پر چند قدم آگے کی جانب بڑھیں تو جہاں اس فرش کی حدود ختم ہو گی وہاں قدرے نیچے کی جانب سڑک کے کنارے سفید رنگ کا ایک سادہ مگر نہایت پر نور مکان نظر آئے گا جس پر ایک سبز رنگ کا بورڈ آویزاں ہے جس پر مکتہ المکرّمہ لکھا ہے۔یہی وہ بابرکت اور مقدس مکان ہے جہاں رسول اللہ ﷺ کی پیدائش مبارکہ ہوئی اس مکان کی ایک واضح نشانی یہ بھی ہے کہ اس سے متصل ٹیکسی کا ایک چھوٹاسا اسٹینڈ ہے اور اس سڑک پر صرف یہی ایک مکان بنا ہوا ہے۔اللہ تعالیٰ ہر مسلمان و کلمہ گو کو اس متبرک مقام کی زیارت کی سعادت نصیب فرمائے۔ (آمین!) جس سڑک پر یہ عظیم اور متبرک مکان موجود ہے اس سڑک کا نام ”شارع ملک سعود‘‘ ہے۔
مطاف
”مطاف‘‘ مسجد الحرام کے اس گول صحن کو کہتے ہیں جہاں کعبۃ اﷲ کا اردگرد اﷲ کے بندے ہر طرف طواف کرتے نظر آتے ہیں مسجد الحرام کا صحن ایک اسی رونق اور روح پرور جگہ ہء جہاں انسانوں کے ساتھ جنات اور ملائکہ بھی ہر وقت اﷲ کے اس پیارے اور مقدس گھر کا طواف کرتے رہتے ہیں اور اس کی رونق ایک لمحہ کے لیے بھی ماند نہیں پڑتی۔
مسعیٰ
جبل صفا اور جبل مروا کے درمیان جب حجاج سات چکر لگاتے ہیں، شرعی اعتبار سے اس عمل کو سعی کہا جاتا ہے اور اس جگہ کا سعی کا یہ عمل بی بی ہاجرہ کی تقلید میں کیا جا ہے۔ جب اﷲ کے حکم کی تعمیل کر تے ہوئے سیدنا ابراہیم ؑ اپنے شیرخوار فرزند سیدنا اسماعیل ؑ او ر بیوی سیدہ ہاجرہ کو مکہ کی بنجر اور غیر آباد زمین پر تنہا چھوڑ گئے تو عین اس مقام کے قریب جہاں کعبۃ اﷲ کی پر شکوہ عمارت موجود ہے۔ بی بی اپنے معصوم لخت جگر سیدنا اسماعیل کو گرم تپتی زمین پر لٹا کر پانی کی تلاش میں صفا کی پہاڑی پر گئیں جو اس مقام سے چند گز کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس پہاڑی سے وہ دیوانہ وار شفقت مادری کے جذبے کے تحت دوڑتی ہوئی مروا کی پہاڑی تک آئیں اور پھر پانی نہ پا کر بے قراری سے واپس صفا کی پہاڑی کی جانب دوڑیں۔ پانی کی تلاش میں اس محت کی ماری ماں نے دونوں پہاڑوں کے درمیان سا ت چکر لگائے ۔ یہ ایک جانب اﷲ کے حکم کی تعمیل تھی اور دوسری جانب بیٹے کی محبت کی بے قراری ۔اﷲ رب العزت کی اپنی اس بندی کی یہ ادا اس قدر پسند آئی کہ اس نے رہتی دنیا والوں پر واجب بھی کردیا کہ وہ جب بیت اﷲ یا عمرہ کی غرض سے مکہ مکرمہ آئیں تو صفا اور مروہ کے درمیان تیز چلتے ہوئے بی بی ہاجرہ کی اس سنت کو ضرور پورا کریں۔
بیت اﷲ کی جدید تعمیر کے بعد یہ دونوں پہاڑیاں اب مسجد الحرام کے اند ر آگئی ہیں اور جب حجاج اور ذائرین صفا سے مروا کی جانب چلتے ہیں تو کعبتہ اﷲ شریف ان کی بائیں جانب اور واپس مرواسے صفا کی جانب چلتے ہوئے داہنی طرف نظر آتا ہے۔ زائرین کی سہولت کے لیے پورے وسیع گیلری نما راستے کو خوبصورت ٹائلوں سے مزین کر دیا گیا ہے اور ا پر چلنے کے بعد اس احساس ہی نہیں ہوتا کہ کبھی یہ پہاڑی راستہ تھا۔ اس پورے راستے کو خوشنمالائٹوں اور بھر پور ائیر کنڈیشننگ نظام سے منسلک کر دیا گیا ہے ٹھنڈی ہوا ؤں میں سعی کرنے والے زائرین کو اس وقت کی تکلیف کا ضرور احساس کرنا چاہیئے جب بی بی ہاجرہ نے تپتی دھوپ میں یہ عمل کیا تھا۔
میزاب رحمت
کعبۃ اﷲ کی وہ دیوار جس کے ساتھ حطیم واقع ہے اس کے اوپر چھت کی جانب دیکھا جائے تو ایک پرنالہ سا نظر آتا ہے ۔ اسی پر نالہ کو ”میزاب رحمت‘‘ کہتے ہیں۔ اس میزاب کی رحمت سے صرف خوش نصیب ہی فیض یاب ہو پاتے ہیں۔ مکہ مکرمہ جب بارش ہوتی ہے تو کعبۃ اﷲ کی چھت پر جو پا نی جمع ہوتا ہے وہ اسی میزاب رحمت سے ہو کر نیچے حطیم میں گرتا ہے تو زائرین اس پانی سے اپنے جسموں کو تر کرتے ہیں۔ میزاب رحمت کی لمبائی ۲۵۸سینٹی میڑ ، اندرونی چوڑائی ۳۶سینٹی میڑ ہے۔ اس کا رخ مدینہ منورہ کی جانب ہے جبکہ یہ چاندی کی نگینوں سے کعبۃ اﷲ کی دیوار میں پیوست ہے۔
مسجد الحرام کے دروازے
مسجد الحرام کی جدید توسیع کے بعد اس کے داخلی اور خارجی دروازوں کی تعداد ۹۵ ہو گئی ہے اور زائرین اور حجاج کرام جس دروازے سے چاہیں حرم پاک میں داخل ہو سکتے ہیں ۔ تاہم رسول پاک سیدنا ﷺ کی سنت ہے کہ آپ عمرہ کی غرض سے جس مقام سے حرم کعبہ میں داخل ہوئے تھے وہاں آج کل حرم کا مشہور دروازہ ” باب العمرہ ‘‘ قائم ہے اور اسی واقعہ کی مناسبت سے اس دروازے کا نام ” باب العمرہ‘‘ رکھا گیا ہے۔ مسجد الحرام کے کم وبیش تمام داخلی دروازے کسی نہ کسی نا م سے موسوم ہیں اور ان دروازوں پر جلی حروف میں ان کا نام اور نمبر درج ہیں ان ۵دروازوں میں سے ۵دروازے مرکزی گیٹ کی حیثیت رکھتے ہیں جو اپنی کشادگی کے اعتبار سے دیگر دروازوں سے بڑے اور وسیع ہیں۔ انہی مرکزی دروازوں کے اوپر بلند اور پر شکوہ مینار تعمیر کیے گئے ہیں جو دور سے داخل ہونا چاہیے ۔ یہ افضل ہے لیکن ضروری نہیں ۔رش کے زمانے میں اگر ہر حاجی یا زائر اس دروازے سے بیت اﷲ شریف (حرم) میں داخل ہونے کی کوشش کرے گا تو یہ نہایت مشکل بلکہ ناممکن امر ہوگا لہذا حاجیوں کی جہاں رہائش ہو ان کو اسی جانب موجود دروازوں سے حرم میں داخل ہو جانا چاہیے۔
باب فتح
حرم شریف کے اس دروازے کا نام باب فتح اس للیے رکھا گیا ہے کہ باہر انتہائی نزدیک وہ مقام یا جگہ موجود ہے جہاں فتح مکہ کے موقع پر رسول ﷺ نے فتح کا جھنڈا نصب کیا تھا اور غسل فرمایا تھا۔ یہ دروازہ جھنڈا نصب کرنے کی جگہ مسجد الرائیہ کے قریب ہے عربی میں رائیہ جھنڈے کو کہتے ہیں۔
باب فہد
شاہ فہد کے حکم سے مسجد الحرام کی جدید تو سیع کے بعد جو نیا دروازہ بنایا گیا ہے اسے باب فہد کا نام دیا گیا ہے۔ یہ دروازہ حرم پاک کے دروازے باب عبدالعزیز کے بائیں جانب نہایت قریب ہے۔ باب فہد سے مسجد الحرام میں داخل ہونے کے بعد ذائرین اپنے آپ کو حرم پاک کے جدید حصے میں پاتے ہیں۔ حرم کا یہ حصہ جدید تعمیر کا شاہکار ہے۔ بڑے بڑے فانوس اور ائیر کنڈیشننگ نظام نے اس حصہ کو نہایت پر کشش بنا دیا ہے۔
رکن یمانی
کعبۃ اﷲ شریف کے چار کونوں میں سے ایک کونے پر حجرہ اسود نصب ہے، جہاں سے طواف کا آغاز کیا جاتا ہے۔ ہجرہ اسودوالا کو نہ خانہ کعبہ کا پہلا کونہ کہلاتا ہے۔ دوسرا کونہ شامی کہلاتا ہے جو حطیم کی ابتدائی دیوار سے متصل ہے۔ تیسرا کو نہ رکن یمانی عراقی حطیم کی اخٹا می دیوار کی جانب ہے اور آخری یعنی چوتھا کونہ ”رکن یمانی ‘‘ ہے۔ حجرہ اسود والے کونے کے بعد کعبۃ اﷲ کے اس کونے کو بڑی فضیلت حاصل ہے ۔
حجرہ اسود کے کونے کی مانند اس کونے پر سے بھی عام دنوں میں غلاف کعبہ کیا کچھ حصہ اٹھا ہوتا ہے اور طواف کرنے والے اس کو نے کو بھی ہاتھوں سے مس کرتے ہیں۔ طواف کے دوران تمام حجاج اور زائرین اپنی اپنی زبانوں میں مسنون دعائیں پڑھتے ہیں لیکن کعبۃ اﷲ کے چھوتے کونے پر رکن یمانی پر پہنچ کر تمام لوگوں کی زبانیں ایک ہو جاتی ہیں اور رکن یمانی سے حجرہ اسود تک تمام لوگ عربی کی یہ دعا با آواز بلند پڑھتے ہیں جس سے فضا میں ایک کیف اور سرور کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔
ربنا اعطینا فی الدنیا حسنتاو فی الاخرۃ حسنتاوقنا عذاب النار وادخلنآلجنۃ مع الا برار یا عزیز یا غفار یارب العالمین۔
یہ دعا ہر طواف کرنے والے کو اس مقام سے حجرہ اسود کی جانب چلتے ہوئے لازمی پڑھنی ہوتی ہے۔ زائرین اور حجاج کے لیے بہتر ہے کہ وہ اس دعا کو یاد کریں لیکن اگر کسی کو یاد نہیں تو وہ دوسروں کی بلند آواز سے اپنی آواز ملا کر یہ دعا پڑھی جا سکتی ہے۔ بہر کیف کعبۃ اﷲ کا طواف کرتے وقت رکن یمانی پر رک کر اس سے محبت کا اظہار کرنا چاہئیے۔
بئیر زم زم
کعبۃ اﷲ سے چند قدم کے فاصلے پر دنیا کا وہ عظیم کنواں موجو د ہے جس کا وجود آج کی جدید تعلیم یا فتہ دنیا کے لیے بھی حیران کن امر ہے۔ مکہ مکرمہ کے چٹیل پہاڑوں کے دامن میں خوش ذائقہ پانی کا بیش بہا خزانہ ہزاروں سال سے جاری و ساری ہے۔ لیکن کیا مجال کہ اس کی مقدار اور ذائقے میں کبھی کوئی کمی واقع ہوئی ہو۔ یہ کنواں مسجد الحرام کے صحن ، مطاف میں مقام ابرہیم کے نزدیک ملتزم اور کعبۃ آﷲ شریف کی سنہری دروازے کے عین مقابل ہے۔ اس کنوایں کے منہ پر نشانی اور مقام کی پہچان کے لئے ایک کالا دائرہ بنا دیا گیا ہے۔ کچھ سال قبل تک اس دائرے میں لفظ ”زم زم ‘‘ لکھا تھا ۔ مگر شائد لوگوں کے پیر پڑنے کی وجہ سے یہ لفظ اب مٹا دیا گیا ہے۔ یہ اتنا بڑا دائرہ ہے ایک آدمی آسانی سے اس پر کھڑا ہو کر نماز ادا کر سکتا ہے۔ حجاج اور زائرین یہاں نوافل ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن یہاں دیگر مقامات کی نسبت زیادہ رش رہتا ہے۔ اس دائرے کی خاص بات یہ ہے کہ یہ عین اسی مقام پر موجو د ہے۔ جہاں ننھے اسماعیل ؑ نے پیاس کی شدت کے باعث اپنی ایڑیاں رگڑیں تو اﷲ رب العزت کی مثیت سے پانی کا چشمہ پھوٹ پٹرا ۔ لیکن جگہ جگہ بڑی تعداد میں واش بیسن لگا کر حجاج اور ذائرین کے لیے ٹھنڈے زم زم کا اہتمام کیا گیاہے۔ حجاج او ر ذائرین کے نئے زم زم بطور تبرک اپنے اپنے ملکوں کو لے جانے کے لیے مسجد الحرام کے باب الفتح اور باب العمرہ کے درمیان نلکے لگائے ہیں جہاں وہ اپنے کولر بھر سکتے ہیں ۔ مسجد الحرام کے اندر اس کی ممانعت ہے۔
حجر اسود
حجر اسود جنت کا پاک اور محترم پتھر جو کعبۃ اﷲکے سنہری دروازے سے متصل ہے۔ اس مقام سے ہی طواف کعبہ کا آغاز ہوتا ہے اور ہر چکر اس مقام پر ختم ہو تا ہے۔ حجر اسود کو بوسا دینا ہر مومن کے دل کی تمنا ہوتی ہے اور اس لیے توحید کے پروانوں کا اس مقام پر ہجوم لگا ہو تا ہے۔ یہ طواف کے ہر چکر کے بعد حجر اسود کو چومنا سنت رسولﷺ ہے لیکن بھیڑ (رش) زیادہ ہو تو ہاتھ سے چھو کر بھی بوسہ دیا جا سکتا ہے اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو دور سے استلام بھی کیا جا سکتا ہے۔ استلام کے معنی ہیں کہ جتنی بھی دور ہو اپنا سینہ حجرہ اسود کے سامنے کر کے اس طرح کھڑے ہوجائیں کہ آپ کے داہنے کندھے کی سیدھ میں حجرۂ اسود ہو اور پھر دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو کھول کر اس کا بوسہ کریں اور پھر حجرۂ اسود کی جانب اشارہ کریں۔ یہ عمل ہر چکر کے شروع کرنے سے قبل تین مرتبہ کریں یہ عمل حجرہ اسود کو بوسہ دینے کے برابر ہے۔
وادی محسر
مزدلفہ کے مقدس اور روحانیت سے لبریز میدان سے متصل منٰی کی جانب ایک چھوٹا سا میدان ہے جسے ”وادی محسر‘‘ یا ”وادی النہار‘‘ کہتے ہیں ۔ یہ دراصل عذاب کا میدان ہے اور حاجیوں کے لئے بالخصوص اور دیگر لوگوں کے لئے بالعموم حکم ہے کہ قیامت تک کوئی اس میدان میں کبھی کسی غرض سے نہ رکے۔بہتر تو یہ ہے کہ اس میدان سے گزرا ہی نہ جائے اور اگر کسی طور اس سے گزرنا ناگزیر ہو تو ضروری ہے کہ پیدل چلنے والے اپنی عام رفتا کو بڑھا کر اور سواریاں بھی اپنی اسپیڈ تیز کرکے اس عذاب کے میدان سے جلد از جلد گزر جائیں۔
دراصل یہی وہ میدان ہے جہاں اللہ کے حکم سے ابابیلوں کے جنڈ کے جھنڈ ”ابرہہ‘‘ کے ہاتھی بردار لشکر پر کنکریاں برسانے آئے تھے۔ ابرہہ جو یمن کا گورنر تھا، اللہ کے گھر کعبۃاللہ کو معاذاللہ ڈھانے کا خواب لیے اپنے دیوہیکل ہاتھیوں کے ساتھ مکہ کی جانب بڑھ رہا تھا ۔ کنکریاں دراصل کنکریاں نہیں بلکہ ”حکم ربی‘‘ تھیں اور پھر دنیا نے دیکھا کہ اس وادی محسر میں ایک عذاب برپا ہو گیا ۔ ہاتھی بھُس بن گئے۔ تمام فوج نیست و نابود ہو گئی اور یہ میدان قیامت تک کے لئے عبرت گاہ بن گیا۔
مزدلفہ
مزدلفہ کے میدان میں حجاج پوری رات کھلے آسمان تلے اللہ کی عبادت کرتے ہیں ۔اس میدان سے حاجیوں کو ۴۹ کنکریاں چن کر اپنے پاس محفوظ کرنا پڑتی ہیں کیونکہ اگلی صبح ”منٰی‘‘ پہنچ کر شیطان کو یہی کنکریاں ماری جاتی ہیں ۔ مزدلفہ کی مرکزی مسجد ”معشرالحرام‘‘ ہے۔
ملتزم
کعبۃ اﷲ کے سنہری دروازے سے متصل دیواژملتزم ‘ ‘ کہلاتی ہے یہ اﷲ رب العزت سے دعائیں مانگنے کی عظیم ترین جگہ ہے۔ اس دیوار کو سینے سے چمٹا کر فرزند ان توحید ا اﷲ رب العزت سے گڑ گڑا کر دعائیں مانگتے ہیں۔ یہ مقام ابراہیم ؑ کے بالکل سامنے والی کعبے کی دیوار ہے۔ ملتزم سے چمٹ کر دعائیں مانگتے وقت ہر حاجی یوں تصور کرنا چاہیے کہ وہ اس وقت عرش الہی کے نیچے ہے یہ بڑی برکتوں والی جگہ ہے۔
مقام ابراہیم
مسجد الحرام میں کعبۃ اﷲ کے سنہری دروازے کے عین سامنے وہ مقام ہے جسے” مقام ابراہیم ‘‘ کے نام سے منسوب کیا ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں سیدنا ابراہیم ؑ نے کعبۃاﷲ کی تعمیر کے بعد اﷲ رب العزت سے دعا کی تھی کہ
” اے میرے رب! اب تو نے اپنے بندوں کے اپنے گھر کے طواف کے لیے بھیج
‘‘۔ مسجد الحرام میں مقام ابراہیم پر دو رکعت صلوٰۃ کی ادائیگی نہایت اجرو ثواب کا باعث ہے اور اگر کسی شخص کو اس مقا م پر صف بندی کر تے ہوئے فرض نماز کی ادائیگی کا موقع نصیب ہو جائے تو معا ملہ نور اعلیٰ نور کی منزل تک جا پہنچتا ہے۔
جبل صفا
جبل صفا ”جبل صفا‘‘ یعنی صفا کی پہاڑی وہ مقا م ہے جہاں سے حاجی سعی کی ابتدا کرتے ہیں ۔ یہ پہاڑی اب مسجد الحرام کی تو سیع کے بعد مسجد کی عالیشان عمارت کے اندر آگئی ہے ۔ مسجد کی جدید تعمیر کے بعد اب پہاڑی تو تقریباً ختم ہو چکی ہے البتہ نشانی کے طور پر ایک پہاڑی نما ٹیلہ ضرور موجود ہے جس کے سنگلا خ پتھر حجاج اور ذائرین کے مسلسل چلنے کی وجہ سے چکنے اور ہموار ہو گئے ہیں۔ یہ وہی تاریخی مقام ہے جہاں رسول ﷺ نے کفار مکہ کے سامنے دین اسلام کی ابتدا ئی دعوت دی او ر اسی پہاڑی پر کھڑے ہو کر آپ ؐ نے جب کفار سے یہ کہا کہ اگر میں کہوں کہ اس پہاڑی کے پیچھے دشمن کی فوجیں موجود ہیں تو کیا تم لوگ یقین کر لو گے۔کفار جو رسول ﷺ کی صداقت کے معترف تھے بولے ” یقیناً ‘‘ کیونکہ آپ تو صادق ہیں تب رسول ﷺ نے دین اسالم کی ابتدا ئی تبلیغ کا آغاز فرمایا اور کفار مکہ کو ایک اﷲ کی عبادت کی دعوت دی۔ صفا ہی وہ متبرک پہاڑی ہے جہاں سے بی بی حاجرہ نے اپنے شیر خوار فرزند کو مکے کی گرم ریگستانی زمین پر لٹا کر پانی کی تلاش کی سعی شروع کی تھی اس پہاڑی سے آج بھی کعبۃ اﷲ صاف نظر آتا ہے۔ جہاں اس وقت شیرخوار سیدنا اسماعیل ؑ لیٹے ہوئے تھے اور پیاس کی شدت سے سخت بے چین تھے۔ زائرین عمرہ اور حجاج اسی پہاڑی سے سعی کی ابتدا ء کرتے ہیں ۔ یہ پہاڑاسلامی تاریخ کا ایک نہایت اہم متبرک پہاڑ ہے۔ مسجد الحرام میں اگر ”باب صفا ‘‘ جو مسجد الحرام کے پانچ مرکزی دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے۔داخل ہوں تو داہنے ہاتھ پر مسجد شریف کی بالائی منزل پر جانے کے لیے لفٹیں لگی ہوئی ہیں اور وہیں معذوروں اور بو ڑھے کے لیے وہیل چیئرز کھڑی نظر آتی ہیں جو کرایہ پر (اس کا کرایہ چالیس ریال ہے اور یہ صفا اور مروا کی سعی کے لیے ) حاصل کی جا سکتی ہے۔
عرفات
عرفات کا میدان حجاز مقدس کا متبرک میدان ہے۔ جہاں ہر سال اسلام کا عظیم اجتماع ”وقوفِ عرفات‘‘ ہوتا ہے۔ جسے حج کا رکن اعظم کہا جاتا ہے۔ یہی وہ میدان مبارک ہے جو روزِ حشر کا میدان قرار پائے گا اور اسی میدان میں انسانوں کے اعمال کا حساب کتاب ہوگا۔اسی میدان میں خوش نصیبوں کو جنت کی نوید اور بد قسمتوں کو دوزخ کا مژدہ سنایا جائے گا۔ یہیں اللہ رب العزت کی میزان نصیب ہو گی۔ حجاج اور زائرین کے ذہنوں میں رسول اللہ ﷺ کے اس آخری خطبے کے جزئیات بھی ہونے چاہئیں جو آپؐ نے اپنے آخری حج کے موقع پر دئیے تھے۔
جبلِ رحمت
میدان عرفات میں واقع یہ پہاڑی ”جبلِ رحمت ‘‘ نہایت متبرک اور تاریخ ساز اہمیت کی حامل ہے۔ اس پہاڑی کی چوٹی پر ایک سفید رنگ کا ستوں بنایا گیا ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ وہ مقام ہے جہاں سیدنا آدم ؑ اور سیدہ بی بی حوا جنت سے نکالے جانے کے بعد دوبارہ آملے تھے۔ان کا یہ ملاپ اللہ بزرگ و برتر کی رحمت کے باعث ممکن ہوا تھا لہٰذا اس مناسبت سے اسے ”جبلِ رحمت‘‘ یعنی رحمت کا پہاڑ کہتے ۔ یہی وہ بابرکت پہاڑ ہے جس پر کھڑے ہو کر ہادی بر حق سیدنا محمد ﷺ نے حج الوداع کے موقع پر تاریخ ساز خطبہ ارشاد فرمایا تھا۔
میلین اخضرین
ایسے تو جبل صفا اور جبل مروا کا درمیانی راستہ جسے ” مسعیٰ ‘‘ کہتے کو میلن اخضرین کہتے ہیں۔ بی بی حاجرہ جب پانی کی تلاش میں صفا اور مروا کے درمیان دیوانہ وار دوڑ رہی تھیں یہ مقام جیسے میلن اخضرین کہتے ہیں اس وقت نہایت نشیبی تھا۔ لہذا آپ جب یہاں پہنچیں تو کعبۃ اﷲ شریف کے سامنے زمین پر لیٹے آپ کے فرزند سیدنا اسماعیل ؑ آپ کی نظروں سے اوجھل ہو جاتے تھے۔حالت بے قراری میں آپ اس نشیبی حصہ میں تیزی سے دوڑنے لگتیں۔بے تابی اور شفقت مادری کی یہ تڑپ خالق کائنات کو اس قدر پسند آئی کہ آپ نے رہتی دنیا تک ہر سعی کرنے والے شخص پر لازم قرار دے دیا کہ وہ اس چند میڑ کے فاصلے کو سید حاجرہ کی سنت پوری کرتے ہوئے دوڑ کر عبور کرے۔تاہم خواتین کے لیے حکم ہے کہ وہ دوڑنے کی بجائے قدرے تیز چلیں۔ لیکن مردوں کو اس مقام پر دوڑ لگانی چاہیے۔
حکومت سعودی عرب نے ”مسعیٰ ‘‘ میں اس مقام کی نشاندہی کی خاطر چھت اور اطراف کی دیواروں پر سبز ٹیوب لائٹ لائٹس لگا دی ہیں۔ ان سبز ٹیوب لائٹس کے بدولت اب حجاج اور زائرین دور سے ہی اس متبرک مقام کا اندازہ لگا لیتے ہیں ۔ میلن اخضرین کا مقام بجلی مروا کی نسبت جبل صفا سے قدرے نذدیک ہے ۔ یہ دعاؤں کی قبولیت کی جگہ ہے۔ اس مقام پر سعی کرنے والے نہایت روحانی جذبے کے ساتھ بی بی حاجرہ کی سنت پوری کرتا نظر آتا ہے۔ اس مقام کا تاریخی پس منظرسامنے رکھتے ہوئے اگر یہاں سے گذرا جائے تو سعی کی عبادت کا مزا دوبا لا ہو جاتا ہے۔ ویسے تو ”مسعیٰ ‘‘ اور ”میلن اخضرین ‘‘ میں ایک حاجی جو۔۔۔۔جائز حاجت اﷲ سے مانگ سکتا ہے لیکن ایک دعا آقائے نامدار سیدنا محمد ﷺ سے منسوب ہے جو آپ میلن اخضرین میں سے گزرتے ہوئے مانگا کرتے تھے۔ اس دعا مبارکہ کے الفاظ یہ ہیں۔ ” اے اﷲ تو بخش دے اور رحم فرما ۔ بے شک تو سب سے زیادہ غالب کرم کرنے والاہے۔‘‘
جبل مروہ
جبل مروا یعنی مروا کی پہاڑی صفا کی پہاڑی کے مخالف سمت میں واقع ہے۔ اس پہاڑی پر بھی جبل صفا کی طرح اب چند ہی پہا ڑی پتھر بطور نشانی باقی رہ گئے ہیں اور بقیہ پوری چٹان خوبصورت تراش خراش کے بعد نہایت دلفریب چکور ٹائلوں سے مزین کر دی گئی ہے۔ حج اور عمرے کی سعی کے مسنون سات چکروں کا اخٹام اسی پہاڑی پر ہو تا ہے جہاں زائرین رو رو کر دعائیں کرتے ہیں۔ مروا کی پہاڑی کے باہر جو سفید ٹائلوں سے مزین فرش ہے یہی دراصل وہ مقدس جگہ ہے جو مکہ میں رسول ﷺ کا محلہ یا علاقہ تھا۔ یہیں کچھ فاصلے پر آپ کی جائے پیدائش بھی تھی ۔ ایک بات اور نہایت ضروری ہے کہ زائرین کی کثرت کے باعث مسجد الحرام کی بالائی منزل پر بھی صفا اور مروا کی سعی کی جاتی ہے۔ تاہم پہاڑی کے ٹیلے اور باب المروہ سے باہر نکلنے کا راستہ صرف زمینی منزل پر موجود ہے۔ کوشش کرنی چاہیئے کہ زمینی منزل پر سعی کریں تاہم بالائی منزل پر بھی سعی کرنا جائز ہے اور اجر وثواب میں کوئی کمی نہیں۔
مسجدِ نمرہ
میدانِ عرفات میں واقع ”مسجدِ نمرہ‘‘ کی اہمیت ہر حاجی بخوبی جانتا ہے یوم عرفہ یعنی ۹ذوالحجہ کو ہر سال یہاں خطبہ دیا جاتا ہے۔ اس مسجد کی دو باتیں نہایت دلچسپ ہیں۔ اول تو یہ یہاں سال بھر میں صرف ایک دن دو نمازیں ادا کی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ اس مبارک و متبرک مسجد میں کوئی اور آذان یا نمازِ فرض نہیں ہوتی ۔ وقوفِ عرفات یعنی ۹ ذوالحجہ کو جب پوری دنیا کے حاجی لبیک اللھم لبیک کہتے ہوئے اس مسجد اور میدان عرفات میں جمع ہوتے ہیں تو یہاں ایک آذان اور دواقامتوں کے ساتھ صلوٰۃ الظہر اور صلوٰۃ العصر ایک ساتھ قصر کرکے پڑھی جاتی ہیں۔ اس مسجدکی دوسری دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کا کچھ حصہ حڈو د عرفات کے باہر ہے جس کے باعث وقوفِ عرفات کے موقع پراس مسجد شریف کا وہ حصہ جو حدودِ عرفات کے اندر ہے حجاج سے کھچا کھچ بھرا ہوتا ہے جبکہ حدودِ کے باہر کا حصہ بالکل خالی رہتا ہے۔حکم ربانی کی یہ رکاوٹ کس قدر طاقتور ہے کہ کسی مادی رکاوٹ کے نہ ہونے کے باوجود کوئی مسجد کے دوسرے حصے کی جانب جانے کی جرات نہیں کرتا ۔پوریے میدان عرفات اور مسجدِ نمرہ کے ارد گرد بڑے بڑے مضبوط پول لگائے گئے ہیں جن پر آج کل پیلا رنگ کر دیا گیا ہے جو اس باتبا کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ جگہ حدودِ عرفات میں ہے۔
منٰی
منٰی وہ مبارک میدان ہے جہاں اسلامی تاریخ کے بہت سے روحانی واقعات ظہور پذیر ہوئے، اسی میدان میں آزمائش سیدنا ابراہیم ؑ اور سیدنا اسماعیلؑ ہوئی جب سیدنا ابراہیم خلیل اللہ نے اپنے خواب کو سچا کر دکھایا ارو اللہ کی راہ میں اپنے بیٹے کی قربانی دینے کے لئے تیار ہوئے۔ منٰی میں ہی وہ مقام موجود ہے جہاں رسول اللہ ﷺ پر سورۂ کوثر نازل ہوئی۔ یہاں ایک اور نہایت متبرک جگہ ”مسجد عقبہ‘‘ ہے جہاں اہل مدینہ نے رسول اللہ ﷺ کے دست مبارک دو بعتیں کیں۔اس میدان مبارک میں ”منٰی‘‘ کی مرکزی مسجد ”مسجد خیف‘‘ بی ہے جہاں ستر انبیاء اکرام مدفون ہیں۔ ”منٰی‘‘ وہ میدان ہے جہاں حجاج حج کے پانچ دنوں میں سے چاردن اور چار راتیں گزارتے ہیں اور اسی مناسبت سے یہاں حاجیوں کا ایک شہر ۸ ذوالحجہ سے ۱۲ زوالحجہ تک قائم ہو جاتا ہے۔
جمرات
جمرات دراصل میدان منٰی میں وہ تین مقامات ہیں جہاں انسان کے اذلی دشمن ”ابلیس‘‘ یعنی شیطان ملعون نے اللہ کے نبی سیدنا ابراہیم ؑ کو ورغلانے کی ناکام کوشش کی۔ سیدنا ابراہیم ؑ نے خواب میں دیکھا کہ وہ اپنے سب سے محبوب بیٹے”اسماعیل ؑ ‘‘ کو اللہ کے حکم سے ذبح کر رہے ہیں۔ جب آپ نے اس کا ذکر اپنے بیٹے سے کیا تو سیدنا اسماعیل ؑ بھی عشق باری تعالیٰ میں جھوم اٹھے اور بولے ”اباجان آپ اپنا خواب سچا کر دکھائیے۔مجھے آپ ان شاء اللہ ثابت قدم پائیں گے‘‘۔
شیطان نے جن تین مقامات پر سیدانا ابراہیم ؑ کو ورغلانے کی ناکام کوشش کی تھی وہاں علامتی اعتبار سے تین ستوں بنائے گئے ہیں۔ اس میں سے ایک ”جمرہ الاولی‘‘ ہے جو مسجد خیف کے نزدیک ہے اس سے آگے تھوڑی دور پر ”جمرہ وسطی‘‘ ہے اور اس سے آگے تقریباً منٰی اخٹام پر ”جمرہ عقبہ‘‘ ہے۔