چند تاکیدی امور
صبر:
ہر جگہ ، ہر موقع پر بہت زیادہ صبر کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
فضائل اخلاق پر عمل پیراہونا:
ہمیشہ خصوصاً سفر حج میں سچ کو اپنائیں- فحش باتوں، فضول گوئی اور جھگڑے کی باتوں سے اجتناب کریں- ہر ایک سے خوش خلقی سے پیش آئیں- نرم رویہ اختیار کریں اور ایثار و قربانی کا مظاہرہ کریں۔
نظم و ضبط کا خیال:
پاکستان اور سعودی قوانین کی پابندی کریں، حکام سے تعاون، گروپ لیڈر اور گروپ کے افراد کے ساتھ تعاون اور اجتماعی پروگرام پر عمل درآمد کریں اور وقت کی پابندی کریں۔
عبادات پر توجہ:
زیادہ وقت عبادت میں گزاریں۔ فرض نمازیں باجماعت، نماز جنازہ باجماعت، نفلی عمرہ، نفلی طواف، تلاوت قرآن، صلوة حاجت، صلوة تسبیح ، قرآنی و مسنون دعائیں وغیرہ۔
پردے کا اہتمام:
خواتین کے لیے سا تر لباس کا اہتمام۔ ترجیحاً گاؤن اور اسکارف کا استعمال وگرنہ ڈھیلا ڈھالہ لباس، سر پر اسکارف اور بڑی چادر- باپردہ، باوقار اور وضع قطع کے لحاظ سے موزوں لباس استعمال کریں۔ پردہ ایک قرآنی حکم ہے اور ان احکام میں شامل ہے جن کا ادا کرنا اہل ایمان خواتین کے لیے لازم (فرض) ہے- نیز سعودی قوانین کی رو سے خواتین کے لیے سر اور زینت کو ڈھانپنا ضروری ہے- حکم شرعی اور ملک کے وقار کا خیال رکھیں۔
صفائی کا خیال:
اپنی قیام گاہوں اور غسل خانوں میں حتیٰ الامکان صفائی کا خیال رکھیں تاکہ مشترکہ رہائش کے دوران دوسرے لوگوں کے لیے پریشانی کا باعث نہ ہو- نیز راستوں میں گند پھیلانے سے اجتناب کریں اور دوسروں کو بھی توجہ دلائیں۔ منیٰ اور عرفات کے قیام میں بھی خیموں اور گزرگاہوں میں کوڑا پھینکنے کے بجائے مختص ڈرموں میں ڈالیں۔
بازاروں سے گریز:
بازار کی طرف ہر وقت دھیان رکھنے سے عبادت کی یکسوئی میں کمی آتی ہے، وقت ضائع ہوتا ہے، جگہ کی تنگی اور وزن اٹھانے کا مسئلہ ہوتا ہے۔ روانگی کے قریب وقت میں چند چیزیں خرید لیں اور احباب کے لیے سب سے اچھا تحفہ کھجور اور آب زم زم کا ہے۔
باہمی تعاون/ایثار و قربانی:
خواتین، بزرگ اور معذور افراد کی مدد کریں اور دوسروں کی خدمت کرنے میں فخر محسوس کریں اور اسے عبادت سمجھیں۔ حجر اسود کے بوسے اور روضہ رسول ﷺ پر سلام پڑھنے کے لیے دھکم پیل اور دوسروں کو تکلیف پہنچانے سے گریز کریں۔
دوگانہ طواف:
دوگانہ طواف عین مقام ابراہیم پر ہی پڑھنا ضروری نہیں ہے بلکہ مطاف یا مسجد میں کہیں بھی پڑھے جاسکتے ہیں۔ مطاف اصلاً طواف کرنے والوں کے لیے ہے، اس لیے جب طواف کرنے والوں کا ہجوم زیادہ ہو تو مقام ابراہیم پر نماز پڑھنا طواف کرنے والوں کے لیے باعث رکاوٹ و اذیت ہوسکتا ہے اور کسی کو اذیت دینا خصوصاً حج کے دوران سخت ناپسندیدہ بات ہے۔
روضہ رسول پر سلام:
سلام پڑھنے کے لیے بار بار حجرہ رسول کے سامنے جانا ضروری نہیں بلکہ ہر وقت مسجد میں کہیں سے بھی پڑھا جاسکتا ہے البتہ جب جانے کا موقع ملے تو نہایت ادب و احترام اور عاجزی کے ساتھ سلام پیش کریں۔
ادائیگی حج کے بعد محاسبہ نفس:
حج بیت اللہ و عمرہ کی سعادت حاصل کرنے پر دلی مبارکباد قبول کیجئے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ آپ کا حج، حج مبرور ہو- آپ کے سب گناہ بخش دیے جائیں اور آپ کی ساری محنت قبول ہو۔ آمین۔
یہ حقیقت ہے کہ حج و عمرہ کی سعادت صرف صحت اور دولت ہی کی بنا پر حاصل نہیں کی جاتی بلکہ اس کا حصول تو صرف اللہ کی رحمت پر منحصر ہوتا ہے- اب جس خوش قسمت کو یہ نعمت حاصل ہوگئی ہے اس کے لیے لازمی ہے کہ اپنے رحیم و کریم خالق کا حج و عمرہ کی توفیق ملنے پر دل سے شکر گزار ہوکہ اللہ تعالیٰ نے اس پر بہت بڑا احسان کیا ہے- (قلبی شکر) اور زبان سے بھی اس کی اس نعمت کا اعتراف اور اپنی شکر گزاری کا اظہار کرے۔(قولی شکر) اور عملی طور پر اس نعمت کا تقاضا پورا کرنے کی طرف متوجہ رہے۔ (عملی شکر) اور اس عملی شکر کا مطلب یہ ہے کہ پچھلے گناہوں سے معافی کے بعد جو نئی زندگی ملی ہے اسے گناہوں سے بچانے کی پوری پوری کوشش کرتا رہے۔
چنانچہ آپ کے لیے بہت ضروری ہے کہ حج و عمرہ کے بعد اپنی روزمرہ زندگی میں وقتاً فوقتاً اپنا محاسبہ کرتے رہیے اور غور کرتے رہیے کہ حج و عمرہ نے آپ کی زندگی میں کہاں تک تبدیلی پیدا کی ہے۔ (اس حوالے سے ذیل میں محترمہ بنت الاسلام صاحبہ کی کتاب صیام رمضان و حج بیت اللہ سے ماخوذ کچھ سوالات درج کیے جارہے ہیں):
۔ کیا اب آپ کے دل کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت نے آباد کر رکھا ہے؟
۔ کیا آپ نے شرائط نماز کو ملحوظ رکھتے ہوئے وقت کی پابندی کے ساتھ خضوع و خشوع پیدا کرنے کی کوشش کی ہے؟
۔ کیا آپ رمضان کے فرض روزوں کی پابندی کے ساتھ نفل روزوں کا ارادہ بھی باندھ رہے/رہی ہیں؟
۔ کیا آپ اپنے مال کی زکوٰة کے بارے میں فکرمند ہیں؟
۔ کیا آپ کو یہ فکر لاحق ہوتی ہے کہ جو آمدنی گھر میں آرہی ہے وہ خالصتاً حلال روزی ہو؟
۔ کیا آپکو اس دنیوی زندگی کی اہمیت اور اختصار دونوں کا اتنا پتہ چل گیا ہے کہ آپ نے لایعنی کام اور لایعنی کلام چھوڑ دیے ہیں؟
۔ کیا آپ نے ذاتوں، برادریوں، قبیلوں، علاقوں اور زبانوں کے تعصبات سے آزاد ہوکر خالص اسلام کی بنیاد پر لوگوں سے محبت کرنی شروع کردی ہے؟
۔ کیا آپ میں اتنا حوصلہ، اتنا حلم، اتنا جذبہ عفو پیدا ہوگیا ہے کہ انسانوں کی زیادتیوں کو نظرانداز کرکے ان سے تعلقات رکھنے ہی کو اپنی کامیابی سمجھیں؟
۔ کیا آپ کے اندر “میں” کا احساس کم ہوکر وہ انکساری پیدا ہوئی ہے جو اللہ اور اس کے رسولﷺ کو پسند ہے؟
۔ کیا آپ کے اندر زبان کے استعمال کے حوالے سے احتیاط پیدا ہوئی ہے؟
۔ کیا آپ کی توجہ حقوق کے حصول کے بجائے فرائض کی ادائیگی کی طرف مبذول ہوئی ہے؟
اگر ایسا نہیں ہے تو فکر کیجیے اور اگر یہ سب تبدیلیاں آپ میں آگئی ہیں یا ان کا کچھ حصہ بھی نظر آرہا ہے تو پھر اس مالک کا بے حد شکرادا کیجئے جس نے پہلی خطائیں بھی مٹائیں اور آگے بھی نیک توفیق عطا فرمائی۔